Thursday, 15 August 2013

Pakistan Noor Hai Aor Noor Ko Zawal Nahin.




گمنام ادیب_______________عظمت علی عظمت


(پاکستان نو ر ہے اور نور کو زوال نہیں)

کیاآپ مانتے ہیں کہ  
 ”پاکستان نور ہے اور نور کو زوال نہیں“…………؟
آپ مانے یا نہ مانے میں تو مانتا ہوں کہ  
 پاکستان نور ہے اور نور کو زوال نہیں“۔
یہ ۱۱ ستمبر ۱۰۰۲ میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملے کے بعد کی بات ہے جب امریکہ اپنی ورلڈملٹری سپر پاورکے ساتھ افغانستان پر حملے کیلئے آرہا تھا۔ ہر طرف سے یہ خبریں آنے لگیں کہ امریکہ جنوبی ایشیاء میں اُن دہشت گردوں کے خلاف تباہ کن جنگ لرنے کیلئے آرہا ہے جو پوری دنیا کیلئے سنگیں خطرہ ہیں۔ جبکہ ان دہشت گردوں کے تربیتی مراکزافغانستان اور پاکستان کے مغربی سرحدی علاقوں میں ہیں۔ ان خبروں میں یہ خبر بھی بہت نمایاں آرہی تھی کہ امریکہ کا اصل ہدف پاکستان ہے کیونکہ پاکستان اُمت مسلمہ کی پہلی اور دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت ہے۔ امریکہ کو اندیشہ ہے کہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیار غیر محفوظ ہیں۔ یہ ایٹمی ہتھیار اُن دہشت گردوں کے ہاتھ لگ سکتے ہیں جو دنیا کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔
بین الاقوامی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے مسلح افواج کی خوف ذدہ کر دینے والی مسلح تیاریوں کے ساتھ جنوبی ایشیاء میں داخلے کی فلمیں دکھانا شروع کر دیں۔پاکستان کی طرف بڑھتے ہوئے اس خطرنا ک ”خطرے“کو دیکھ کر صاف بات ہے میں بہت پریشان، خاموش اور خوف ذدہ رہنے لگا۔
اسی پریشان ذہن، خوف ذدہ دل اور لرزتے وجود کے ساتھ مورخہ ۰۱اکتوبر ۱۰۰۲؁ کو میں ”دانائے دگر“ حضرت واصف علی واصف ؒ کے نواں سالانہ عر س مبارک میں شرکت کے لیے لاہور پہنچا۔چوبرجی سے مزنگ چونگی کی طرف جانے والی بہاول پور روڈ پر جب میں ”آستانہ واصفیہ“کے سامنے رکشہ سے اُترا تو میری پہلی نظر آستانہ مبارک پر لگے ہوئے ایک بہت خوبصورت ”بینر“پر پڑی جس پر واصفِ باصفاؒ کا یہ فرمان مبارک لکھا تھا۔    ”پاکستان نور ہے اور نور کو زوال نہیں“یہ فرمان پڑھتے ہی میں نے محسوس کیا کہ پاکستان کے بارے میں میرے سب اندیشے ختم ہو گئے اور میری طبیعت میں موجود بوجھل پن، پریشانی اور خوف فوراََ غائب ہو گئے۔ میرے اندر ایک لطیف اور امید افزاء قوت پیدا ہو گئی۔ میرے دل کو قرار آ گیا۔ میں ادب سے دربار واصفؒمیں حاضر ہوا، میری آنکھوں سے ٹپکنے والے آنسوؤں نے سرکارؒ کو سلام پیش کیا اور کچھ دیر کھڑا رہنے کے بعد آنکھیں موند کر میں آپؒ کے قدموں میں بیٹھ گیا۔
تھوڑی ہی دیر میں مجھے یہ یقین حاصل ہو گیاکہ ہر قسم کے اندرونی اور بیرونی خطرات اور حملوں کے باوجود، اہل اور نا اہل قیادتوں اور حکومتوں کے باوجود(انشااللہ)پاکستان قائم و دائم رہے گا……کیونکہ مجھے واصف صاحبؒ کی ذات پر اعتماد ہے۔ میں جانتا ہو ں کہ واصف ؒ اللہ تعالٰی کے انعام یافتہ بندوں کی صف میں ایک خاص مقام پر کھڑے ہیں۔ آپؒ مرد مومن ہیں، مرد حق آگاہ ہیں۔Super Man ہیں۔ دانائے راز ہیں، صاحبِ نظر ہیں، نقیبِ فطرت ہیں، فطرت آپ کو جو کچھ دکھاتی ہے آپؒ وہ بیان کرتے ہیں اور صاف صاف بیان کرتے ہیں۔ آپ ؒ صاحب حال ہیں، آپ ؒ کو”علمِ لدّنی“عطا ہوا،آپؒ صاحبِ نگاہ ہیں اور اللہ کے نور سے دیکھتے ہیں۔ آج میں بھی دیکھ رہا ہوں اور آپ بھی دیکھ رہے ہیں کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے افغانستان اور پاکستان پر تباہ کن ڈرون اوردیگر حملوں اور ان حملوں کے رد عمل میں دہشت گردوں کے حملوں میں ناقابل تلافی جانی اور مالی نقصان پاکستان کو اُٹھانا پڑاہے لیکن اس کے باوجود یہ ملک اپنے پورے وجود کے ساتھ(الحمداللہ)قائم ہے اور قائم رہے گا۔ (انشااللہ)
دشمنانِ پاکستان نے پاکستان توڑنے کیلئے ہمیشہ پاکستان پر بد ترین حملے کیے انہی حملوں میں ایک حملہ ۷۲دسمبر ۷۰۰۲؁ کو راولپنڈی میں ”محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ“ پر ہوااور وہ اس حملے میں شہید ہو گئیں۔ اس المناک سانحہ کے فوراََ بعد پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں قتل و غارت اور لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہو گیاجبکہ ایک طرف سے نہ کھپے نہ کھپے، پاکستان نہ کھپے، کے نعروں کی آواز آنے لگی۔ ان نعروں نے بہت سے محب وطن پاکستانیوں کے دل ہلا کر رکھ دیئے۔ میں نے کئی سنجیدہ اور حساس لوگوں کوپریشانی کی کیفیت میں یہ کہتے ہوئے دیکھا اور سنا کہ اب خدا نخواستہ پاکستان ٹوٹ ہی نہ جائے۔ لیکن ایک دن بعد نہ صرف اہل پاکستان بلکہ پوری دنیا نے دیکھا کہ ”خالق پاکستان“نے آصف علی زرداری کو اپنا میڈیم بنایا اور ان کی زبان سے”پاکستان کھپے“کی صدا پاکستان کی بقاء اور قیام کا نعرہ بن کر گونجی اور پاکستان ٹوٹنے سے بچ گیا۔
آصف علی زرداری صاحب کو پاکستان کی اس عظیم خدمت کے صلے میں پاکستان بنانے والے نے صدر پاکستان بنا دیااور اب وہ ”صدرِ مملکت ِخدادادِ پاکستان“کے منصب پر اپنی آئینی مدت پوری کر کے جارہے ہیں۔
آج میں اور آپ ایک دلچسب دور یہ بھی دیکھ رہے ہیں کے ۲۱ اکتوبر۹۹۹۱؁ ء کو منتخب وزیر اعظم پاکستان جناب محمد نواز شریف سے اس وقت کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل پرویز مشرف نے حکومت پاکستان چھین لی اور نواز شریف صاحب کو قید کر دیا۔
تقریباََ ایک سال کی قید کے بعد نواز شریف صاحب اور ان کے اہل خانہ کو سعودی عرب روانہ کر دیا گیا۔ ۷۰۰۲؁ میں میاں صاحب پاکستان آگئے اور ۸۰۰۲؁ میں پرویز مشرف صدر پاکستان کے عہدے سے استعفٰی دے کر پاکستان سے فرار ہو گئے۔ آج پاکستان ۳۱۰۲؁ ء جارہا ہے پرویز مشرف قید میں ہیں اور جناب میاں محمد نواز شریف صاحب وزیر اعظم پاکستان ہیں۔ یہ سب پاکستان کے حقیقی خالق و مالک ذات کی شان ہے۔
پوری دنیا پاکستان کو اسلام کا قلعہ سمجھتی ہے اور اس میں کچھ شک نہیں کہ پاکستان اسلام کا قلعہ ہے اور رہے گا…………کیونکہ پوری دنیا یہ مانتی ہے کہ اس پوری کائنات کا خالق اللہ ہے اور وہ ہمہ وقت کل کائنات پر قدرت رکھتا ہے۔
اللہ تعالٰی کا پسندیدہ دین ”دینِ اسلام“ہے۔ اس دین اسلام کو ماننے والے اور اس پر چلنے والے مسلمان کہلاتے ہیں۔
برصغیر کی تاریخ بتاتی ہے کہ جب نو کروڑ غلام مسلمانوں پر اللہ تعالٰی نے رحم کیا تو ان کے اندر آزاد اور خود مختار اسلامی ریاست کے حصول کا جذبہ بیدار ہوا۔ اللہ تعالٰی نے ان کی رہنمائی اور قیادت کیلئے انہیں علامہ اقبال ؒ اور قائد اعظم ؒ جیسے ”دانائے راز“عطا کر دیے”علامہ اقبال ؒ نے مسلمانوں کو وحدت افکار دی قائداعظم ؒ نے وحدت کردار“”نتیجہ“اللہ تعالٰی کے فضل و احسان سے غلام مسلمانوں کو غیر مسلموں کی غلامی سے نجات ملی اور اللہ کے نام پر پاکستان بن گیا۔ آج دنیا میں پاکستان کا قیام قابلِ غور ہے کہ پاکستان کی تخلیق میں اقبالؒاور قائداعظم ؒ کیا راز ہیں ……؟
واصفِ باصفاؒ فرماتے ہیں ……”ہم دیکھتے ہیں کہ قوم بزرگوں کے دن مناتی ہے۔ اُس دن بزرگ لوگ اپنی عارضی رخصت کے باوجود اپنے دنوں کے منائے جانے کا لطف حاصل کرتے ہیں۔ قائداعظم ؒ کے مزار پر حاضری دینا قائدؒ کی روح کو سلام ہے اور اس کیلئے آسودگی کا پیغام ہے۔ اِسی طرح باقی لوگوں کے آستانوں پر ہماری حاضریوں کا عالم ہے……انسان سوچ سمجھ کر غور کے ساتھ اپنے رابطوں کو دریافت کرے۔ اپنے رابطوں کی حفاظت کرے اور اپنے رابطوں سے ہو سکے تو قوم کو آگاہ کرے۔ اقبالؒ نے پیرِرومی ؒ سے رابطہ کیا، حالانکہ پیرِرومی کوئی زندہ انسان نہیں تھے اور پیرِرومی ؒ کا فیض اقبال ؒ کے اندر بولا، قوم نے دیکھا، قوم نے سوچا، قوم نے فیصلے کیے، فیصلے کامیابیوں سے سرفراز ہوئے اور آج وہی فیصلے ہمارے ہم ہونے کا جواز ہیں۔“
یہاں قابلِ غور بات یہ ہے کہ مولاناروم ؒ کا وہ فیض جو اقبالؒ کے اندر بولا اور تصور ِپاکستان بن کر سامنے آیا پھر اس تصور کے مطابق پاکستان بن بھی گیاتو فیض مولانا روم ؒ کو کہاں سے ملا……؟اس سوال کے جواب میں مولا نا روم ؒ کا یہ شعر سامنے آتا ہے کہ!
مولوی ہر گز نہ شد مولائے روم
تا غلام ِشمس تبریزیؒ نہ شُد
یعنی کہ مولوی کو مولانا روم ؒ بنانے والی اور فیض دینے والی ذات تو شمس تبریز ؒ کی ……ذات ہے۔ کہتے ہیں کہ مولانا جلال الدین رومیؒ بڑے مغرور عالم ِ دین تھے۔ ایک دن مسجد میں بیٹھے کچھ لکھ رہے تھے کہ ان کے پاس پھٹے پرانے لباس میں ایک دَرویش آئے اور اُن سے پوچھا کہ ”یہ کیا علم ہے؟“مولانا نے کہا اِسے آپ نہیں جانتے۔ شمس تبریز ؒ نے مولانا کی کتابوں کی گٹھڑی اُٹھائی اور وضو کیلئے موجودپانی کے تالاب میں پھینک دی۔ مولانا یہ دیکھ کر بہت پریشان ہوئے کہ ان کی برسوں کی انتھک محنت پر پانی پھر گیا ہے مولانا بہت روئے، چیخے، چلائے اور جب بہت دکھی ہوئے توشمس تبریزؒ نے پانی سے گٹھڑی نکالی اور خشک گٹھڑی سے گرد جھاڑ کر مولانا کے ہاتھوں میں تھما دی۔ مولانا نے حیرت زدہ ہو کر اُن سے پوچھا”یہ کیا علم ہے؟“شمس تبریز ؒ بولے جسے تم نہیں جانتے۔ بس پھر مولانا روم ؒ غلامِ ِشمس تبریزؒ ہو کر رہ گئے۔
جب شمس تبریزؒسے پوچھا گیا کہ آپ کو یہ فیض، یہ نور، یہ راز ِمخفی، یہ علم لدنّی، کہاں سے ملاتو انہوں نے بتایا کے مجھے یہ ”علم“باب العلم یعنی حضرت علی ؑ سے ملا ہے۔
حدیث مبارک ہے۔ انا مدینتہ العلم وعلی ”بابھا“  ترجمہ۔ ”میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے۔“سمجھنے والوں کیلئے یہ بات سمجھنا آسان ہو گئی ہے کہ جو فیض شمس تبریزؒ کو حضرت علیؓ سے ملاوہ فیض در حقیقت مدینتہ العلم، امام الانبیاء، خاتم المرسلیں، باعثِ تخلیقِ کائنات حضرت محمدﷺ کی ذاتِ مقدس سے جاری ہوا۔
واصف سرکارؒ فرماتے ہیں۔ ”آپ صلی اللہ علیہ والیہ وسلم ہی کی بخشی ہوئی نورِ ایمان کی روشنی میں پاکستان بنا……اورآپ صلی اللہ علیہ والیہ وسلم ہی کے فیض ِ نظر سے اِس کا قیام اور دوام ممکن ہے!!“
اِس طرح ”پاکستان نور ہے اور نور کو زوال نہیں“یہ پیغام ہے جاننے والوں کی طرف سے نہ جاننے والوں کیلئے کہ وہ پاکستان کو توڑنے کی سازش اور کوشش کرنے والی اندرونی اور بیرونی طاقتوں سے ڈرنے کے بجائے پاکستان کو بنانے والی قوت پر کامل یقین رکھیں۔ مجھے یقین ہے کہ یہ ملک ہمیشہ قائم رہے گا۔ پاکستان کا مستقبل روشن ہے۔ پاکستان اُمت مسلمہ کا ایک عظیم نشان ہے۔ہر محب وطن پاکستانی کو چائیے کہ وہ اپنے ذاتی مفادات پر ملک اور قوم کے مفاد کو ترجیح دے۔ اپنے ایمان کو سلامت اور یقین کو قائم رکھ کر عاجزی کے ساتھ یہ التجاء کرتا رہے کہ

کرم ہو اَرض ِ پاکستان پہ یا رحمتِ عالم ؐ
سلامی دے رہا ہے سبز پرچم یارسولؐ اللہ

تحریر:عظمت علی عظمت
رابطہ نمبر: 03125802278

narashareef@yahoo.com